افسانہ پیاس از ایم مبین
افسانہ پیاس از:۔ ایم مبین
اچانک ہونٹ خشک ہونے لگے اور حلق میں کانٹے سے پڑنے لگے ۔
اس نے اپنی زبان اپنے خشک ہوتے ہونٹوں پر پھیر کر انھیں تر کرنے کی کوشش کی تو ایسا محسوس ہوا کہ حلق کے کانٹوں کا جنگل گھنا ہوتا جا رہا ہے ۔
’’ہے بھگوان !‘‘ اس کے ہونٹوں سے نکلا اور اس نے اپنے ہاتھوں میں بندھی گھڑی دیکھی ۔ ابھی تو دس ہی بجے ہیں ۔ منہ میں جمع ہوا تھوک نگلتے ہوئے وہ بڑ بڑایا اور اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا پھیلنے لگا ۔ ابھی سے پیاس لگ گئی ہے ابھی تو پورے تین چار گھنٹے گذارنے ہیں ! آج غلطی سے میں اپنے ساتھ پانی کی بوتل نہیں لایا ہوں ۔ یہ وقت کس طرح کٹے گا ؟
سوچتے اس نے برش کو رنگ کے ڈبے میں ڈبویا ۔ اسے نکال کر زائد لگے رنگ کو ڈبے کے منہ پر رکھ کر خشک کر نے کی کوشش کی اور پھر برش کو سامنے کی سیمنٹ کے پلاسٹر والی دیوار پر پھیرنے لگا ۔ پلاسٹر برش میں لگا سارا رنگ یوں پی جاتا جیسے برسوں سے پیاسا ہو ۔ دو ہاتھ ،تین ہاتھ ،چار ہاتھ مارنے کے بعد بھی رنگ اپنے وجود کے نشان کے اثرات بھی نہیں چھوڑ پا رہا تھا ۔ جیسے رنگ پینے کی ایک وحشی پیاس سیمنٹ میں سما گئی ہو ۔
تھک کر اس نے برش کو رکھ دیا اور جیب سے بیڑی جلا کر اس کا کش لینے لگا ۔ پہلا کش سینے میں جاتے ہی ایسا محسوس ہوا کانٹوں کا جنگل پھیل کر منہ تک آگیا ہے ۔ منہ بھی خشک ہونے لگا اور زبان پر بھی کانٹے پڑنے لگے ۔
یہ پیاس تو پڑھتی جا رہی ہے ؟ بڑ بڑاتے ہوئے اس نے اوپر دیکھا ۔
اس کے اوپر صرف سیمنٹ کے پلاسٹڑ والی ایک دیوار تھی جس کا سرا اوپر آسمان میں جا کر ختم ہوتا تھا ۔ وہاں سے دو رسیاں لٹک کر نیچے آرہی تھی ۔ یہ وہ رسیاں تھیں جن سے لکڑی کا وہ ٹکڑا بندھا ہوا تھا جس پر وہ بیٹھا تھا ۔ نیچے نظر ڈالنے سے بھی سیمنٹ کے پلاسٹروالی دیوار کا ایک سلسلہ دکھائی دیتا تھا ۔
نیچے اِدھراُدھر آتے انسان اور سواریاں ،کاریں ،بسیں ،چھوٹی چھوٹی چیونٹیوں کی طرح ادھر ادھر رینگتے دکھائی دیتی تھی ۔ وہ ۵۰ منزلہ ایک عمارت کی ایک سائڈ کی دیوار تھی ۔ اس وقت وہ اس ۵۰؍ منزلہ عمارت کی ۲۵ویں منزل پر اس رسی سے بندھے لکڑی کے ٹکڑے پر بیٹھا دیوار کو رنگ دے رہا تھا ۔ وہ اپنی مرضی سے نہ نیچے جا سکتا تھا اور نہ اوپر ۔
گذشتہ دو مہینوں سے وہ اس بلڈنگ کے کلر کا کام کر رہا تھا اور جھولتے جھولے پر رنگ دینے کاکام کرتے ہوئے اوپر کی ۵۰ویں منزل سے کام کرتے کرتے ۲۵ ویں منزل تک پہونچا تھا ۔ اس بلڈنگ کے رنگ کے کام میں اس طرح اور بھی کئی مزدور لگے ہوئے تھے لیکن ان کاکام اس کی نسبت کافی آسان تھا ۔
وہ عمارت کے کمروں کی بالکنیوں سے اسی رسی کے جھولے باندھ کر اترتے اور بلڈنگ کو رنگ دیتے تھے ۔ ان کے لیے رنگ دینے والی جگہ پہونچنا یا پھر واپس بالکنی میں آنا کوئی مشکل کام نہیں تھا ۔ لیکن وہ بلڈنگ کی جس دیوار کو رنگ دے رہا تھا وہ بلڈنگ کی دوسری دیواروں سے قدرے مختلف تھی ۔ وہ پوری طرح مسطح تھی۔ پوری دیوار میں ایک بھی کھڑکی یا بالکنی نہیں تھی ۔
اس لیے اس دیوار کو رنگ دینے کے لیے جو جھولا لٹکایا جاتا تھا وہ ۵۰ ویں منزل سے لٹکایا جاتا تھا ۔ اب تک وہ اس جھولے پر بیٹھ کر ۵۰ ، ۴۹ ویں منزلوں کو رنگ دے کر ۲۵ ویں منزل تک پہنچا تھا ۔ اس کاکام سب سے زیادہ پر خطر تھا اور مضبوط دل گردے کا آدمی ہی یہ کام کر سکتا تھا ۔ مسلسل پانچ گھنٹوں تک جھولتے جھولے پر بیٹھ کر کام کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا ۔
اسے اس طرح کے کام کا اچھی طرح تجربہ تھا اس لیے عمارت کی اس سائڈ کی دیوار کے رنگ کاکام اس نے لیا تھا کیونکہ اس طرح کی عمارت پر جھولے میں بیٹھ کر اکیلے پانچ گھنٹے کام کرنا اس کا معمول تھا ۔ سویرے آٹھ ساڑھے آٹھ بجے کے قریب رنگ ساز و سامان کے ساتھ اسے جھولے پر بیٹھا کر اس کے ساتھ جھولے کی رسی دھیرے دھیرے نیچے چھوڑتے تھے ۔ مطلوبہ جگہ پر پہونچنے کے بعد رسی کو بازو میں باندھ کر وہ چلے جاتے اور اپنے اپنے کاموں میں لگ جاتے ۔ اس کے بعد وہ جھولے پر بیٹھ کر کھڑا ہو کر اپنے قد کے برابر والی دیوار پر کبھی بیٹھ کر کبھی کھڑا ہوکر رنگ دینے کاکام کرتا تھا ۔ جھولے پر بیٹھ کر کام کرنے میں کم خطرہ تھا لیکن کھڑے ہو کر کام کرنے میں زیادہ خطرہ تھا ۔ ذرا سی بے خیالی توازن بگاڑ کر اسے رنگ کے ڈبے اور برش کے ساتھ جھولے سے گرا سکتی تھی ۔ رنگ دیتے وقت اس کی کمر کے گرد ایک رسی بندھی ہوتی تھی جس کے سرے جھولے کی رسیوں سے بندھے ہوتے تھی ۔
اس طرح اس کے جھولے سے گرنے کے امکانات کم تھے لیکن ایسی حالت میں گرنے پر گھنٹوں رسیوں سے لٹکے رہنے کے امکانات زیادہ تھے ۔ اس طرح کے کسی حادثے کی صورت میں اسے اس حالت سے اسی وقت نجات مل سکتی تھی جب کسی کی نظر اس پر پڑ جائے یا پھر اس کے جھولے کو اوپر کھینچنے کا وقت ہوجائے کو عموماً دوپہر میں ۲؍ بجے کھانا کھانے کے لیے اور شام ۶؍ بجے کام ختم کرنے کا ہوتا تھا ۔ یا اس کی چیخ و پکار اس کے ساتھیوں تک پہنچے اور وہ اس کی مدد کرتے ہوئے جھولے کی رسیوں کو اوپر کھینچ لیں ۔
اس طرح کے حادثے ایک دو بار اس کے ساتھ ہو چکے تھے ۔ وہ گھنٹوں تک اسی طرح رسیوں سے لٹکتا رہا تھا ۔ دوسرا کوئی ہوتا تو اس حادثہ سے خوفزدہ ہوکر دوبارہ اس کام کے بارے میں سوچتا بھی نہیں لیکن اس حادثے کے خوف کو اپنے وجود کا حصہ بنا کر زندگی گذارنا اس کے لیے نا ممکن تھا ۔ اسے علم تھا اسے زندگی بھر یہی کام کرنا ہے وہ دوسرا کوئی کام نہیں کر سکتا ہے ۔ اس لیے اس کام میں پیش آنے والے خطرات اور حادثات سے ڈرنا بیکار کی بات ہے ۔
اس لیے حادثے کے ایک گھنٹے کے بعد وہ دوبارہ اس کام میں لگ گیا تھا ۔اب ۵۰؍ ویں منزل پر رنگ دے کے بلندی سے نیچے جھانکنے پر بھی اس کا دل نہیں دہلتا تھا ۔ یا پچاسویں منزل سے اوپر دیکھتے ہوئے بھی بلندی کا اندازہ لگا کر بھی اب کوئی ڈر محسوس نہیں ہو تا تھا لیکن پیاس اس کے لیے ایک عذاب جان بن جاتی تھی ۔
اکثر وہ پانی کی بوتل ساتھ میں لے کر جھولے پر بیٹھتا تھا ۔ اس طرح اس کے پاس اتنا پانی ہوتا تھا کہ ۳،۴گھنٹے پیاس سے مقابلہ کر سکے لیکن کبھی بھی کچھ بھی ہو جاتا تھا ۔ کبھی کبھی سارا پانی پی لینے کے بعد بھی پیاس نہیں بجھ سکتی اور ایک دو گھنٹہ پیاس کی شدت کو برداشت کرتے ہوئے اسے کام کرنا پڑتا تھا ۔ کبھی غلطی سے پانی کی بوتل جھولے سے نیچے جا گرتی تھی اور وہ پانی سے محروم ہو جاتا تھا اور کبھی غلطی سے وہ پانی کی بوتل اپنے ساتھ لے جانا بھول جاتا تھا تو اسے ۳،۴ گھنٹوں تک پیاس کا مقابلہ کرنا پڑتا تھا ۔ اس دن بھی ایسا ہی ہوا تھا ۔
جلدی میں وہ پانی کی بوتل اپنے ساتھ لے جانا بھول گیا تھا اور ایک گھنٹہ بعد ہی اسے پیاس کی شدت محسوس ہونے لگی تھی ۔ سورج کی تمازت دھیرے دھیرے بڑھتی جا رہی تھی ۔ اس کی کرنوں کا درجہ حرارت وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا تھا اور وہ ان کی چبھن کو اپنے سارے وجود میں محسوس کرتا تھا ۔ جسم کے کھلے حصوں سے جب وہ کرنیں ٹکراتی تو وہاں پر ایک آگ سی دہکتی محسوس ہوتی تھی ۔
کپڑوں کے اندر پہنچ کر وہ سارے جسم میں ایک ہلچل مچا دیتی تھی ۔ سارا جسم پسینے میں نہا جاتا تھا اور ماتھے سے پسینے کا ریلہ بہنے لگتا تھا ۔ ایسے میں وہ بار بار اپنے جسم کے حصوں پر آئی پسینے کی بوندوں کو اپنے پاس کے گندے سے کپڑے سے پوچھتا تو اسے کچھ راحت سی محسوس ہوتی تھی ۔ پسینے صاف کرنے کے بعد جب ٹھنڈی ہوا کا کوئی جھونکا اس مقام سے ٹکراتا تو ایک فرحت کا احساس سارے وجود میں سرایت کر جاتا تھا ۔
کبھی پسینے اور گرمی کی شدت سے گھبرا کر جی چاہتا تھا کہ وہ اپنے سارے کپڑے اتار دے لیکن اسے علم تھا وہ ایسا نہیں کر سکتا ہے کیونکہ کپڑوں کے اندر تو سورج کی کرنیں صرف ہلکی سے گدگدیاں کر کے ہی کام چلا لیتی ہیں ۔ ننگے جسم پر کرنیں ایک الاؤ سی بھڑکا دیتی ہے ۔ اس لیے وہ کبھی کپڑے اتارنے کی بے وقوفی نہیں کرتا تھا ۔
ہاں پسینہ اور گرمی بہت زیادہ پریشان کرنے لگتی تو وہ اپنے ساتھ لائی پانی کی بوتل کا کچھ پانی اپنے سر اور جسم پر ڈال کر انھیں گیلا کر کے گرمی سے نجات پانے کی کوشش کرتا تھا ۔ اس کے لیے سارے موسم ایک طرح سے تھے یکساں تھے ۔ لوگ کہتے ہیں سردیوں میں سورج کی گرمی اور کرنوں کی حدت کا احساس کچھ کم ہوتا ہے لیکن جو لوگ دن بھر کھلے میں کام کرتے ہیں ان کے لیے سردیاں اور گرمیاں دونوں برابر ہوتی ہیں ۔
ہاں یہ بات ہے کہ سردیوں میں حدت کا احساس تھوڑا کم ہوتا ہے اور گرمیوں میں کچھ زیادہ۔
لیکن ۷ ،۸ گھنٹوں تک تو اس حدت کو برداشت ہی کرنا پڑتا ہے ۔ اس کا ہاتھ لرزنے لگا تھا ۔ منہ اور حلق میں کانٹوں کا جنگل گھنا ہوتا جا رہا تھا ۔ ماتھے سے پسینے کی بوندیں ابھر کر ریلے میں تبدیل ہو رہی تھیں ۔ سارے جسم پر جلد کے مسامات سے ننھی ننھی پسینے کی بوندیں ابھر کر کپڑوں کے نیچے ایک ہلچل مچا رہی تھی اور ایک گیلے پن کا احساس وہ سارے سارے وجود میں محسوس کرنے لگا تھا ۔
لرزتے ہاتھوں سے ایک بار برش نیچے گرتے گرتے بچا ۔ اس نے گھبرا کے اپنے ہاتھوں سے برش نیچے رکھ دیا اور ہونٹوں پر زبان پھیر کر پر امید نظروں سے اوپر دیکھنے لگا ،دل میں ایک آس تھی ۔اس کا کوئی ساتھی آکر نیچے جھانکے تو وہ اسے اشارہ کر کے کہ جھولے کو اوپر کھینچا جائے ۔ لیکن اسے علم تھا وقت سے پہلے کوئی بھی آکر نیچے نہیں جھانکے گا اور نہ اس کے کسی اشارے کا مفہو م سمجھ کر جھولا اوپر کھینچ کر اسے اوپر لے جانے کی کوشش کرے گا ۔
اس وقت وہ جس جگہ کام کر رہا تھا وہاں سے وہ کتنا بھی چیخے تو اس کی آواز یا چیخ۵۰؍ ویں منزل کی ٹیرس پر کھڑے کسی انسان تک نہیں جا سکتا تھی ۔ اس طرح وہ آواز دے کر نہ تو اپنی کسی ضرورت کے بارے میں انھیں بتا سکتا تھا اور نہ اپنی کسی خواہش کا اظہار کر سکتا تھا ۔
ہاں اشاروں کے ذریعے وہ اپنا مدعا بیان کرنے کی کوشش کر سکتا تھا لیکن یہ ضرور ی نہیں تھا کہ اوپر والا اس کے اشاروں کو سمجھ کر اس کا مدعا سمجھنے کی کوشش کرے ۔ آج تک ایک آدھ بار ایسا ہوا تھا کہ کسی ضرورت کے تحت اس نے اپنے ساتھیوں کو اشارہ کیا تھا اور انھوں نے اس کا اشارہ پاکر وقت سے پہلے جھولا اوپر کھینچ لیا تھا ۔ جھولا اوپر کھینچنا یا پھر اوپر سے نیچے چھوڑنا بھی آسان کام نہیں تھا ۔ اس کام میں پورے چار سے چھ آدمی لگتے تھے ۔
جھولے کی رسی ،اس پر بندھا لکڑا ، اس کا سازو سامان اوراس جھولے پر بیٹھا وہ ان تمام چیزوں کا وزن اٹھانا دو ،تین لوگوں کے بس کی بات ہی نہیں تھی ۔ چار پانچ لوگ مل کر دھیرے دھیرے رسی کھینچ کر اسے اوپر کھینچتے یا پھر اسے دھیرے دھیرے نیچے چھوڑتے تھے ۔
اس کام میں رسیوں کے توازن کا خاص خیال رکھا جاتا تھا ۔ذ راسی بھی اگر کسی رسی کا توازن بگڑ جائے تو وہ جھولے سے لٹک سکتا تھا یا اس کا سامان گر سکتا تھا ۔ ویسے اب تو بڑی بڑی چرخیوں سے یہ کام لیا جانے لگا ہے ۔ چرخیوں پر رسیاں بندھی ہوتی ہیں ۔ دو آدمی دھیرے دھیرے چرخیوں کو گھما کر ان پر رسیاں لپیٹ کر جھولے کو اوپر آتے ہیں یا پھر چرخیوں کی رسیوں کو دھیرے دھیرے نیچے چھوڑ کر جھولے کو نیچے اتارتے ہیں ۔ اس طرح رسیوں کے توازن بگڑنے سے کسی حادثے کے امکانات نہیں ہوتے ہیں ۔
دیر تک وہ اوپر دیکھتا رہا لیکن کسی نے آکر نیچے جھانکنے کی کوشش نہیں کی ۔ مایوس ہوکر اس نے نیچے دیکھا ۔ نیچے آتے جاتے آدمی چیونٹیوں کی طرح محسوس ہو رہے تھے ۔ ان چیونٹیوں کی طرح محسوس ہونے والے انسانوں تک نہ تو اس کی آواز پہنچ سکتی تھی اور نہ کوئی اشارہ ۔نیچے سے وہ بھی انھیں چیونٹی کی طرح محسوس ہوتا ہوگا ۔
بھلا چیونٹی کیا اشارہ کر رہی ہے وہ کیا سمجھ سکتے ہیں یا دیکھ سکتے ہیں ؟
بے بسی سے وہ اپنے ہونٹوں پر زبان پھیر کر رہ گیا اور منہ میں آئے تھوک کو نگل کر پیاس کی شدت کو کم کرنے کی کوشش کرنے لگا ۔ وقت چیونٹی کی رفتار سے رینگ رہا تھا ۔آسمان میں سورج کا زوایہ تبدیل ہو رہا تھا ۔ اب سورج کی کرنیں عمودی طور پر اس کے وجود پر پڑنے لگی تھی اور وہ ان کی حدت سے اپنے اندر ایک بے چینی محسوس کرنے لگا تھا ۔ سورج کی کرنیں اس کے اندر کی پیاس کو کرید کرید کر جگا رہی تھی اور اس کی شدت میں اضافہ کر رہی تھی ۔
اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھانے لگا تھا اور جسم میں وہ ہلکی ہلکی سی کپکپی محسوس کرنے لگا تھا ۔ اس نے کام کرنا بند کر دیا تھا ۔ اب کام کرنا اس کے لیے ممکن ہی نہیں تھا ۔ ہاتھ کانپ رہے تھے ، ہاتھوں میں برش پکڑنا مشکل ہو رہا تھا تو بھلا وہ اس برش سے کس طرح رنگ دینے کاکام کر سکتا تھا ۔ پیاس کی شدت سے وہ سارے جسم میں ایک کمزوری اور کپکپاہٹ سی محسوس کرنے لگا تھا ۔ اب اسے اپنے وجود کو سنبھالنا تھا ۔اس کے پاس موبائل بھی نہیں تھاجس سے وہ کسی سے ربط قائم کرسکے۔
اگر اس کمزوری کی وجہ سے اس سے ذرا سی بھی لغزش ہو گئی تو وہ جھولے سے گر کر کمر میں بندھی رسیوں سے لٹکنے لگے گا اور وہ اس طرح کب تک لٹکتا رہے گا اسے خود اندازہ نہیں تھا ۔ اس لیے خود کو سنبھالنا ضروری تھا ۔ کام نہ کرنے کی وجہ سے اسے ڈانٹ مل سکتی ہے ۔ اوپر یا نیچے سے سپر وائزر جب اس کے کام کا جائزہ لے گا تو اسے ڈانٹے گا ۔
’’چار گھنٹوں میں تم نے کچھ بھی کام نہیں کیا ؟ تم کام کر رہے تھے یا سو رہے تھے ؟‘‘
یہ تو سپر وائزر بھی جانتا تھا ایسی جگہ پر کیا سونا ممکن ہے لیکن ڈانٹیں دینے کے اپنے طور طریقے ہوتے ہیں ۔ وہ سو بھی نہیں سکتا تھا کہ اگر آنکھ لگ جائے تو نیند میں پیاس کی شدت سے نجات مل سکے ۔ بھلا اتنی سے جگہ پر کیا نیند آ سکتی ہے ؟اور سونے میں تو جان کا خطرہ تھا ۔ بھلے پیاس کی شدت سے نجات مل جائے لیکن جان کا خطرہ لاحق ہو سکتا تھا ۔ اگر وہ سوتے میں لکڑے سے نیچے گر کر جھولنے لگا تو ؟
ایک ایک لمحہ اسے گذر کر اسے اپنی اہمیت کا احساس دلا رہا تھا ۔ ایک ایک لمحہ اسے کاٹنا مشکل ہو رہا تھا ۔ گذرتے ہر لمحے کے ساتھ اس کی پیاس بڑھتی جا رہی تھی۔ اب اس کے پاس ایک ہی کام تھا ۔ وقت کے گذرنے کا انتظار کرنا اور بڑھتی پیاس کی شدت کو برداشت کرنے کی کوشش کرنا ۔ وہ بار بار گھڑی دیکھتا تو اسے سخت مایوسی ہوتی ۔ ’’ابھی صرف دس منٹ ہی ہوئے ہیں ‘‘
ابھی پورے ڈھائی گھنٹے باقی ہیں ۔
ابھی دو گھنٹے اور کاٹنے ہیں ۔ دو گھنٹوں میں تو میرے جان نکل جائے گی ۔
کاش جھولا اوپر کھینچنے واے ۲؍ بجے سے کچھ پہلے ہی آجائیں ؟
دل ہی دل میں وہ ہر طرح کی دعائیں اور منتیں مانگ رہا تھا اور خودکو اتنا بے بس محسوس کر رہا تھا کہ اوپر جانے کے بعد اپنی بے بسی کا وہ کسی سے ذکر بھی نہیں کر سکتا تھا ۔ سب اسی پر غصہ ہوتے ۔
بے وقوف اپنے ساتھ پانی کی بوتل کیوں نہیں لے گیا تھا ؟ اپنی جان بھی ہلاکت میں ڈالی اور کام کا بھی نقصان کیا ۔ اس لیے اسے چپ رہنے میں ہی عافیت محسوس ہو رہی تھی ۔
اچانک وہ چونکا ۔
رسیاں ہل رہی تھیں ۔ ۲ ؍بجنے میں کچھ ہی منٹ باقی تھے ۔ جھولا اوپر کھینچ کر اسے اوپر لانے والے آگئے تھے ۔ وہ جھولا اوپر کھینچ رہے تھے اور وہ دھیرے دھیرے جھولے کے ساتھ اوپر جا رہا تھا ۔ اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے دو ٹھنڈے پانی کے جھرنے کی پھوار اس پر گر رہی ہے اور اسے اس سے اپنی پیاس بجھانی ہے ۔
*****
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ختم شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پ
fiza Tanvi
12-Sep-2022 07:20 PM
Nice
Reply
Arshik
12-Sep-2022 12:19 PM
بہت ہی ،خوبصورت🔥🔥
Reply
Mchoudhary
24-Mar-2022 12:31 AM
☺️💖🤗
Reply